اندھیر نگری ہے یہ اندھیر نگری

اندھیر نگری ہے یہ اندھیر نگری

تحریر: قیصر محمود چوہدری

ظلم خدا کا، اب یہی دن دیکھنا باقی تھا۔ صرف یہی سننے کی کسر رہ گئی تھی کہ جن کے کاندھوں پر ملک و قوم کے مستقبل کا بوجھ تھا، خونخوار بھیڑئیے بن چکے۔ اندھیر نگری ہے یہ اندھیر نگری۔ ہے کوئی اللہ کا بندہ جو اندھیروں میں ڈوبی ہوئی اس قوم کے لیے امید کی صرف ایک ہی کرن بن سکے؟

سانحہ بلدیہ فیکٹری کراچی کے متعلق جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ عام ہو چکی، عدالتی کاروائی کا حصہ بن چکی۔ یہ رپورٹ عام کیا ہوئی، ہماری سیاست ننگی ہو کر بیچ چوراہے پر کھڑی ہو گئی۔ نہ کوئی شرم نہ حیا۔ جاوید ہاشمی سے پوچھنے کو جی کرتا ہے کہ یہی ہے وہ جمہوریت جس کے آپ چیمپئین ہونے کے دعویدار ہیں؟ اس رپورٹ کی روشنی میں تو دولت اسلامیہ ہمارے جمہوریوں کے سامنے دودھ پیتی ہوئی بچی محسوس ہوتی ہے۔ کوئی جائے اور ابوبکر بغدادی کو ہمارے سیاسی بھیڑیوں کی اصلی خصلت سے آگاہ کرے۔ امید ہے کہ اسے راہِ بربریت پر اپنا سچا مرشد مل جائے گا۔

زیادہ دن نہیں گذرے جب دولتِ اسلامیہ کے وحشی دردندوں نے اردن کے قیدی پائلٹ کو پٹرول سے غسل دے کر آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا تھا۔ اس واقعہ پر پوری دنیا لرز اٹھی تھی۔ مشرق تا مغرب لوگوں کے دل دہل گئے تھے۔ انسانیت حیران تھی کہ ایسی سفاکی بھی ممکن ہے۔ لیکن اس معصوم دنیا کو کیا خبر کہ یہ تو کچھ بھی نہیں، اسی دنیا میں ایک ایسا عظیم ترین اسلامی جمہوریہ بھی واقع ہے جہاں 258 انسان، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، زندہ جلا دئیے جاتے ہیں، پھر ان جلی اور جھلسی ہوئی لاشوں پر کھڑے ہو کر سیاست کا جھنڈا اونچا کیا جاتا ہے، مگر مچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ لوگ اپنے ہی قاتلوں کو اپنا مسیحا جان کر ان کے نعرے بھی لگاتے ہیں!

سانحہ بلدیہ فیکٹری کراچی پر جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالتی کاروائی کا حصہ بن چکی، اب انتظار ہے صرف انصاف کا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ایم کیو ایم کے ایک معروف راہنما نے فیکٹری مالکان سے 20 کروڑ کا بھتہ مانگا۔ فیکٹری مالکان نے یہ رقم دینے سے انکار کر دیا۔ بھتہ اور تاوان کی انڈسٹری خوف پر چلتی ہے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ فیکٹری مالکان کو سبق سکھانا ضروری ہو گیا۔ اس دن کا انتخاب کیا گیا جب مزدورں کو تنخواہ ملنی تھی۔ یہ 11 ستمبر 2012 کا دن تھا۔ تنخواہ ملنے کی خوشی میں یہ مزدور فیکٹری پہنچے۔ فیکٹری کے دروازے بند کر دئیے گئے تاکہ کوئی پیسے چرا کر بھاگ نہ سکے۔ لیکن فیکٹری انتظامیہ ایم کیو ایم کے غنڈوں کو نہ روک پائی۔ وہ آئے اور کیمیکلز پھینک کر آگ لگا دی۔ آگ سے بچانے کے لیے حفاظتی انتظامات نامناسب اور ناکافی تھے۔ ہمارے ہاں، ایسے ناگہانی حالات سے نبٹنے کے لیے تربیت کی افادیت پر کون یقین کرتا ہے ۔ اوپر سے تمام دروازے بند۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آگ پھیلنے لگی۔ بھگدڑ مچ گئی۔ عورتیں، بچے اور مرد اپنی اپنی جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ دھوئیں کی مقدار بڑھنےلگی۔ سانس لینا مشکل ہونے لگا۔ فائر بریگیڈ کو کسی نے فون کر دیا۔ لیکن ان کی گاڑیاں ٹریفک میں پھنس گئیں۔ انتظار میں ہر لمحہ ایک صدی کے برابر ہوتا ہے۔ جلتے اور جھلستے ہوئے لوگوں کی امیدیں نا امیدی میں بدلنے لگیں۔ زندگیوں کے چراغ گل ہونے لگے۔ بھتے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے 258 انسان جو سینکڑوں خاندانوں کی روزی روٹی کا سہارا تھے، جل کر کوئلہ بن گئے۔ درجنوں لاشیں ناقابلِ شناخت ہو چکی تھیں۔ جلے ہوئے جسموں کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے ہوئی۔ کراچی میں 258 جنازے اٹھے۔ ساتھ ہی پاکستان سے انصاف کا جنازہ بھی اٹھ گیا۔ ایم کیو ایم کی قیادت کے انسانی جذبات جاگ اٹھے۔ تین روزہ سوگ کا اعلان کر کے ملک و قوم پر احسانِ عظیم کر دیا گیا۔ مگر 258 معصوم روحیں آج تک اس سوال کا جواب تلاش کر رہی ہیں کہ ان کا جرم کیا تھا۔ فیکٹری مالکان نے اگر بھتہ نہیں دیا تو اس میں ان کا کیا قصور تھا؟ یہ روحیں آج بھی انصاف کی تلاش اور انتظار میں ہیں۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ انسانی معاشرہ ہوتا تو اس رپورٹ کے سامنے آنے پر کہرام مچ جاتا۔ حکمرانوں کے لیے منہ چھپانا اور چلو بھر پانی میں ڈوب جانا بھی نا ممکن ہو جاتا۔ انسانیت ایک طرف رہی، درندوں میں بھی اتنی سفاکیت نہیں پائی جاتی۔ منافقت زدہ راہنماوں کو ایم کیو ایم کا نام لینے کی توفیق نہیں ہو رہی۔ پرویز رشید کے جرنیلی لبوں کو بھی اس موضوع پر کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہو پائی۔ اور تو اور، آج کے فرعونوں کے منہ پر بھی تالےپڑے ہیں۔ کوئی اتفاق کرے یا اختلاف، مجھے تو وہ وقت دور نہیں لگتا جب اس قوم کی قیادت خواجہ سراوں کے ہاتھ میں ہو گی۔

عام طور پر تصویر کے دونوں رخ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لیکن بلدیہ ٹاون فیکٹری کا سانحہ ایسا منحوس سانحہ ہے کہ اس کے دونوں رخ ایک جیسے ہی مہیب اور بھیانک ہیں۔ ایسی انہونی پاکستان کے علاوہ کس ملک میں ہو سکتی ہے؟

تصویر کے ایک رخ کے طرف متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے اشارہ کیا ہے۔ رابطہ کمیٹی کا فرمانا ہے کہ بلدیہ ٹاون فیکٹری میں آگ لگانے والے شخص کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وجہ اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ ایم کیو ایم میں جرائم پیشہ عناصر کے لیے زیرو ٹالرنس کی پالیسی پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ کہ اس حقیقت کی طرف سپریم کورٹ بھی توجہ کروا چکی کہ کراچی میں چند سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ ہیں اور جرائم میں ملوث ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم، جیسا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، واقعی اس آتشزدگی میں ملوث تھی۔ اس صورت میں کیا رابطہ کمیٹی اس بھیانک جرم کا اقرار کر سکتی تھی؟ ہر گز نہیں!


اب فرض کرتے ہیں کہ رابطہ کمیٹی کا ہر لفظ سچ ہے، سچ کے سوا کچھ نہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت دودھ سے دھلی ہے اور اس کی قیادت اگر زمین پر اپنا دامن بچھا دے تو فرشتے اس پر نماز پڑھنے کے لیے صفیں باندھ لیں۔ اس صورت میں ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ جھوٹ کا ایک پلندہ ہے، قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ اس جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں کراچی پولیس، آئی ایس آئی، آئی بی، پاکستان رینجرز اور ایف آئی اے کے ارکان شامل تھے۔ اگر ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی واقعی سچی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے یہ تمام ادارے متعصب ہو چکے اور اپنا اعتبار کھو چکے۔ یہ سب ادارے مل کر بھی ایک واقعہ کی آزادانہ تفتیش نہیں کر سکتے۔ عملی مطلب یہ ہوا کہ اب ہمارے ملک کا اللہ ہی حافظ۔

یہ کیس عدالت میں ہے۔ انصاف کا عمل جاری ہے۔ پاکستانی نظامِ عدل میں گاڑیاں توڑنے والے گلو بٹ کو تو سزا ہو جاتی ہے مگر دن دیہاڑے 14 انسانوں کو قتل کروانے والے پکڑے نہیں جاتے۔ قانون کے اپنے تقاضے اور اپنی ہی منطق ہوتی ہے۔ ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے ملکی سلامتی کے ذمہ داروں سے صرف اتنی گذارش ہے کہ بلدیہ ٹاون فیکٹری کے سانحہ کے اصل ذمہ داروں کے متعلق تمام تر شواہد عوام کے سامنے پیش کر دئیے جائیں۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کی ٹیم نے صرف رضوان قریشی کے بیان کی بنیاد پر ہی یہ رپورٹ تیار نہیں کی ہو گی۔ ان کے پاس اور شواہد بھی ہوں گے۔ یہ تمام شواہد قوم کے سامنے پیش کر دئیے جائیں۔ تاکہ عوام کو اس بربریت کے اصل ذمہ داروں کا پتہ چل سکے۔ رہا انصاف، وہ تو ہوتا ہی رہے گا اور نتیجہ بھی معلوم!

https://www.facebook.com/q.m.chaudhry

No comments:

Post a Comment