وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے ایک عرضی


وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے ایک عرضی


بخدمت جناب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان

جناب عالی

مودبانہ گذارش ہے کہ جب سے آپ نے پردھان منتری کا منصب سنبھالا ہے ہمارا عظیم ترین اسلامی جمہوریہ ایک عدد وزیر خارجہ سے محروم چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو قومی خزانے کو تنخواہ اور دیگر مراعات کے ضمن میں ٹیکہ نہیں لگ پا رہا تو دوسری طرف اس وزارت کی ذمہ داریاں بھی آپ کے نرم ونازک کاندھوں پر ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اب آپ کے کاندھے یہ بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہوں گے۔ میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ فدوی کی موجودگی میں اب آپ کو مزید ہلکان ہونے کی ضرورت نہ ہے۔ آئندہ سطور میں یہ واضح کرنے کہ آخر کیوں میں خود کو وزیر خارجہ کی نوکری کے لیے اہل ترین امیدوار پاتا ہوں۔

خدا لگتی کہوں تو تمام تر تلاش کے باوجود مجھے اپنے عظیم ترین اسلامی جمہورئیے کے اصلی اور ایک نمبر پردھان منتری کا سراغ نہیں مل سکا۔ آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ تنگ آ کر وزیر اعظم ہاوس کی جانے والے تمام کھرے ناپے تو پتہ چلا کہ وزیر اعظم کی کرسی کسی غریب کی خوبرو بیوی کی طرح سب کی بھابھی بن چکی۔ جس کا ڈنڈا، اس کا راج۔ چڑھتے سورج کی پوجا میرا بھی سیاسی ایمان ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ جو بھی وزیر اعظم کی کرسی پر اپنی متبرک تشریف رکھے گا، اس کی ذاتی وفاداری اور خدمت گذاری میں کوئی وزیر میرا مقابلہ نہیں کر سکےگا۔ آپ ایک قدر دان آدمی ہیں، امید ہے کہ آپ ہیرے کی قدر کرنے میں کوئی کنجوسی نہیں دکھائیں گے۔

وزیر خارجہ کے منصب کے لیے میری دوسری بڑی خوبی میری سستی اور کاہلی ہے۔ ادھر شام ڈھلی، ادھر ہماری آنکھیں بند ہوئیں۔ سورج سوا نیزے پر آتا ہے تو آنکھ کھلتی ہے۔ چونکہ اس میدان میں آپ کو اپنا مرشد اور امام سمجھتا ہوں اس لیے کبھی وزیر اعظم کی کرسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ہاں، آپ ایوان صدر میں بٹھا دیتے تو کیا ہی بات تھی۔ مگر، شکست تسلیم۔ قصر صدارت کے موجودہ مکین بازی مار گئے۔ مگر ہم نے بھی خوشامد اور چاپلوسی کے میدان میں انہیں مات دینے کا پکا تہیہ کیا ہوا ہے۔ جہاں تک میری سستی کا تعلق ہے تو یقین کیجیے کہ جب سے آپ نے حکومت سنبھالی ہے، یہ عرضی لکھ رہا ہوں جو آج آ کر ختم ہوئی۔ جانتا ہوں کہ وزیر خارجہ کی کرسی پر آپ کی دختر نیک اختر کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن جب تک انہیں سائیڈ پوز میں ایسی تصویر بنوانے کے مشق نہیں ہو جاتی جس سے بے نظیر بھٹو کی یاد تازہ ہو جائے، اس وقت تک یہ خاکسار وزیر خارجہ بن کر اکڑتا پھرے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟

میری تیسری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مجھے بالکل پتہ نہیں کہ ایک وزیر خارجہ کرتا کیا ہے۔ اس کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں، میرے فرشتے بھی نہیں جانتے۔ اس ضمن میں ہمارے وچار آپ کے نیک خیالات سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ اب اگر انسان نے صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلی، گورنر یا وزیر خارجہ بن کر بھی کام ہی کرنا ہے تو اس سارے جھنجھٹ میں پڑنے کا فائدہ۔ چنانچہ، وزیر خارجہ کی کرسی کے لیے میں اس لیے بھی بہترین ہوں کہ میں عملی طور پر کچھ کرنے کا اہل ہی نہیں۔ ہاں، وزیر خارجہ کے آراستہ دفتر میں ضرور بیٹھ سکتا ہوں۔ پروٹوکول کی گاڑیوں کے درمیان ایک بڑی سی گاڑی میں سفر کرنا میرا محبوب مشغلہ ہو سکتا ہے۔ آپ کے حکم ہو اور سرکاری خزانے کا منہ کھلا ہو تو میں وسیع تر قومی مفاد کی خاطر پوری دنیا کا سفر کر سکتا ہوں۔ کاغذ، قلم، کتاب، اور اخبار سے مجھے بھی چڑ ہے۔ آپ جیسی صلاحیت بھی نہیں کی سنجیدہ سا منہ بنا کر ٹی وی پر ایویں ای مدبر اور سنجیدہ سیاستدان نظر آنے کی اداکاری کر سکوں۔ اگر آپ مجھے وزیر خارجہ بنا دیں گے تو اور کچھ بھی نہ کر سکا، ایک کونے میں مصلیٰ ڈال کر آپ اور آپ کے خاندان کے لمبے اقتدار کے لیے دعائیں ضرور کرتا رہوں گا۔

آپ یہ مت سوچیے گا کہ میں بالکل ہی نکما ہوں اور وزیر خارجہ بن کر کچھ بھی نہیں کروں گا۔ جی نہیں۔ میں نے پوری تیاری کر رکھی ہے۔ خادم اعلیٰ کے گذشتہ سات سالوں کی تمام تر بڑھکوں کا رٹا لگا رکھا ہے۔ اگر کوئی والد بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر اپنے بچوں کی جان لے لے گا تو اس کے ہاں تعزیت پر جا کر اس کو یاد دلاوں گا کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ہر ہفتے ایک بیان جاری کرنا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ ہر مہینے ایک بھاشن دینا ہے کہ پاکستان نے جنوبی ایشیا میں باوقار کردار ادا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن عوام سے وعدہ کرنا ہے کہ اگلے چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کبھی کبھی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کر کے ان کو بتانا ہے کہ پاکستان برادر اسلامی ممالک سے برادرانہ تعلقات پر یقین رکھتا ہے۔ اگر مغربی ممالک لفٹ کروائیں تو ان کو بتانا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔ ہر صبح ایک پریس ریلیز جاری کرنی ہے اور عوام کو بتانا ہے کہ بے خبرو دیکھ لو، ہمارے ملک کی عزت اقوام عالم میں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ ہر ہفتے لندن پلان کی قوالی۔ ہر ٹی وی شو میں تحریک انصاف پر تبرا بھیجنا۔ فوجی قیادت اور آپریشن ضرب عضب کی تعریف ہفتے میں باقاعدگی سے دو بار تعریف۔ دیکھ لیا میاں جی۔ خارجہ امور میں کتنے کائیاں ہیں ہم۔۔

میری ان گنت خوبیوں میں ایک خوبی اور بھی ہے اور میرا خیال ہے کہ وزیر خارجہ کی کرسی کے لیے یہ خوبی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ یہ جان کر بہت خوش ہوں گے کہ اگر تذکرہ پاکستان کی مسلح افواج کا ہو تو میرا چہرہ غصے سے لال ہو جاتا ہے، زبان گز بھر لمبی ہو جاتی ہے، سننے والے کو لگتا ہے کہ میں اپنے ملک کی فوج کے بارے میں نہیں بلکہ اسرائیل کی فوج کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ جبکہ دوسری طرف، ذکر اگر بھارت کا ہو تو خواہ مخواہ میرے چہرے پر محبت اور وارفتگی کے تاثرات آ جاتے ہیں۔ مودی سرکار پاکستان کے بارے میں زہر بھی اگلے تو میرے ہونٹ دوستی اور شانتی کی تسبیح کرتے نہیں تھکتے۔ معاملہ بین الاقوامی طاقتوں کا ہو تو زبان بند ہو جاتی ہے اور کان احکامات سننے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں۔ اب ایمانداری سے بتائیے گا کا میرا وزیر خارجہ بننا آپ کے طوالت اقتدار کے لیے کس قدر مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

اگر میں اپنی خوبیاں یونہی گنواتا رہا تو یہ ایک کتاب بن جائے گی۔ اب ایک تو آپ کتاب کو بھارت اور اسرائیل سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں تو یونہی قلم گھسیٹنے سے فائدہ۔ یقین کیجیے، وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے مجھ سے بہتر شخص روئے زمین پر نہیں ملے گا۔ ویسے بھی مجھے یقین ہے کہ وزیر خارجہ کی کرسی صرف اس لیے خالی پڑی ہے کہ آپ کو میری ہی تلاش تھی۔ براہ کرم، خاکسار کو فی الفور وزیر خارجہ تعینات کر کے ممنون احسان فرمائیں۔۔

العارض


قیصر ایم چوہدری، خود ساختہ خادم آستانہ عالیہ شریفیہ، پیرس

جے آئی ٹی رپورٹ، سیاسی زلزلے اور ایم کیو ایم


جے آئی ٹی کی رپورٹ کیا آئی، گندی سیاست کے بدبودار تالاب میں بھونچال سا آ گیا۔ عمران خان اور الطاف حسین ایک دوسرے پر لفظوں کی گولہ باری شروع کر چکے ہیں۔ زرداری اور ہمنوا بھی عنقریب کوئی قوالی شروع کرنے والے ہیں۔ بات بڑھ سکتی ہے۔ اندرون سندھ تک بھی جا سکتی ہے۔ سائیں قائم علی شاہ کی حکومت کے جوڑ بھی ہل سکتے ہیں۔ زرداری جی اگر دم بخود ہیں تو بڑے میاں جی پریشان۔ میاں جی کو یاد ہے کہ جب جب کراچی کا توازن بگڑتا ہے، ان کی محبوب کرسی کے پائے ہلنے اور کھسکنے لگتے ہیں۔ عام آدمی یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت نے کیوں اتنی جلدی اپنی تشریف گرم گرم توے پر رکھ د ی ہے۔

جدے اور دبئی میں دی جانے والی قیمتی قربانیوں کے طفیل، آج پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت چاروں کونوں میں جمہور کا راج جاری ہے۔ جمہور کے راج کو یقینی بنانے کے لیے بہت سے سیاسی جماعتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہر جماعت اپنی اپنی رائے رکھتی ہے۔  حسنِ اتفاق یہ ہے کہ سبھی پارٹیاں صرف ایک نکتے پر سو فیصد اتفاق کرتی ہیں۔ سب کا ماننا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستانی سیاست کی معصومہ بی بی ہے۔ ایم کیو ایم صرف محبت اور پیار کی سیاست کرتی ہے۔ اس جماعت کی جنگ اگر ہے تو صرف زمینداروںسے، وڈیروں سے، سرمایہ داروں سے اور صنعت کاروں سے۔ ایم کیو ایم مگر محبت فاتح عالم کے فلسفے کی قائل ہے۔ اگر یہ وڈیرے اور صنعت کار کسی بھی طرح سے ووٹ لے کر اسمبلی آ جائیں، تو ایم کیو ایم ایک بچھڑی ہوئی بے باک محبوبہ کی طرح سرِ عام ان کے گلے لگ جاتی ہے۔ کسی شاعر نے کہا تھا

ان سے ضرور ملنا، بڑے سلیقے کے لوگ ہیں
سر بھی قلم کریں گے مگر احترام کے ساتھ

تاہم یہ وضاحت از حد ضروری ہے کہ جو لوگ سر کٹی لاشیں بوری میں بند کر کے پھینک جاتے ہیں ان کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لہٰذا، مشتری ہوشیار باش۔ پولیس اور خفیہ والے بطور خاص نوٹ فرما لیں۔

الطاف بھائی اس وقت ایم کیو ایم کے اکلوتے سربراہ ہیں۔ آپ ایک سچے پاکستانی ہیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل جاننے کے لیے آپ برطانیہ آئَے۔ سیاسی پناہ حاصل کی۔ مزدوری کر کے اور پائی پائی جوڑ کر اپنا گھر بنایا۔ اس کے بعد پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ ان دنوں آپ ڈاکٹر عمران فاروق کے قاتلوں کو پکڑنے میں لندن پولیس کی مدد کر رہے ہیں۔ برطانوی حکومت آپ کی دیانت، صداقت اور امانت کی سب سے بڑی قدر دان ہے۔ برطانوی حکومت نے عاجزانہ انداز میں آپ سے برطانوی شہریت قبول کرنے کی استدعا کی۔ الطاف بھائی نے صرف ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر اس گذارش کو قبولیت بخشی۔ لندن پولیس، تو جناب کو اپنا استاد مانتی ہے۔ آپ انتہائی عاجزانہ طبیعت کے مالک ہیں، لہٰذا تھانے جا جا کر ان کی مدد فرماتے ہیں اور بیش بہا مشوروں سے نوازتے ہیں۔ اس پر ایسے حاسدین، جنہوں نےکبھی تھانے تک کا منہ نہیں دیکھا، عجیب عجیب باتیں پھیلاتے رہتے ہیں۔

الطاف بھائی پاکستان سے شدید محبت کرتے ہیں۔ آپ کی اہلیہ جب تک آپ کی اہلیہ رہیں، پاکستان کو اپنی سوکن سمجھتی رہیں۔ مگر ایک عورت اپنی سوکن کب تک برداشت کرتی ہے۔ چنانچہ الطاف بھائی آج کل ایک بار پھر سے سنگل ہیں۔ برطانوی حسینائیں ہر روز آپ کی رہائش گاہ کے سامنے اس امید پر دھرنا دیتی ہیں شائد ان کے نام کے ساتھ الطاف بھائی کا نام جڑ جائے۔ مگر بھائی اپنا تن من دھن پاکستان کے لیے وقف کر چکے۔ عنقریب ان کی جماعت بھی ایم کیو ایم وقف پاکستان کے نام سے جانی اور پہچانی جائے گی۔

دنیا الطاف بھائی کو قائد تحریک کی حیثیت سے جانتی ہے ۔ عام لوگوں کی نظر میں وہ سیاستدان ہیں۔ بہت کم لوگوں کو خبر ہے کہ بھائی پہنچے ہوئے ولی اللہ بھی ہیں۔ آپ مستجاب الدعوٰۃ ہیں۔ ادھر آپ کے لب ہلے، اُدھر دعا قبول ہوئی۔ پارٹی کے سینئر ممبران اس راز سے آگاہ ہیں۔ مگر بھائی نہیں چاہتے کہ یہ راز عام ہو۔ یہی وجہ ہےکہ پارٹی کے اندر ان کا کہا ہوا ہر لفظ ایک آسمانی حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی لیے تو آپ کی پوجا کی جاتی ہے۔ اگر پارٹی کے اراکین کی نظر میں آپ ایک مرشدِ کامل ہیں تو ہندو ممبران آپ کو بھگوان کا اوتار مانتے ہیں۔

اسی طرح بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ایم کیو ایم بھائی کی جیتی جاگتی کرامت ہے ۔ بھائی کی وجہ سے ہی پارٹی کی سانسوں کی مالا قائم ہے۔ الطاف بھائی ہی پارٹی کی تمام ضروریات کے واحد کفیل ہیں۔ پارٹی کو جب بھی مالی مشکلا ت پیش آتی ہیں، بھائی کے حضور درخواست پیش کر دی جاتی ہے ۔ بھائی مصلے پر بیٹھ جاتےہیں۔ اپنے ہاتھ اٹھا لیتےہیں۔ آسمان سے پاونڈز برسنے لگتے ہیں۔ بھائی یہ نوٹ اکٹھے کرتے ہیں اور پارٹ انتظامیہ کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔ یوں پارٹی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔

اب خدا لگتی کہیے گا کہ ایک ایسے عظیم قائد اور عظیم پارٹی پر شک کرنا کیا زیادتی نہ ہو گی۔ آپ خود ہی سوچیے کہ دودھ سے دھلی اس پارٹی پر یہ شک کرنا کہ یہ 290 انسانوں کو زندہ جلانے کے شیطانی عمل میں ملوث ہو گی، کسی گناہِ کبیرہ سے کم ہے کیا۔ یہ تو ممکن ہے کہ الطاف بھائی نے اپنے کسی مرید کو 20 کروڑ روپے دے کر یہ کہا ہو کہ جا بچہ اس غریب فیکٹری مالک کی مدد کر کے آ جا۔ مگر یہ سوچنا کہ ایم کیو ایم کے کسی ممبر نے صرف 20 کروڑ کا بھتہ مانگا ہو گا، پاپ ہے، بہت بڑا پاپ۔ الطاف بھائی تو بڑے دیالو ہیں۔ وہ تو معاف کر دیں گے۔ مگر وہ پوتر طاقتیں جو ان پر سایہ کیے رہتی ہیں، وہ تو کبھی معاف نہ کریں گی۔ الطاف بھائی نے اینکرز پرسنز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسی طرف اشارہ کیا تھا، مگر شر پسند اینکر پرسنز اور صحافیوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا۔

الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کے فیوض و برکات پر بات کرنے کے لیے کتابیں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔ یہ تو صرف ایک کالم تھا۔ کالم کی گنجائش بہر حال محدود ہوتی ہے۔ قبلہ الطاف بھائی اور رابطہ کمیٹی سے گذارش ہے کہ گرم توے سے نیچے اتر آئیں۔ ہمارے لوگ زیادہ پڑھے لکھے تو ہیں نہیں۔ آپ جتنا بولیں گے، اتنے ہی مشکوک ہوں گے۔ الطاف بھائی سے ذاتی گذارش ہے کہ مصلے پر بیٹھ جائیں اور اللہ اللہ کریں۔ سینٹ کے انتخابات کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ رہا 290 انسانوں کے زندہ جلنے کا معاملہ، تو اس کا انصاف تو اوپر والا ہی کرے گا۔ زمینی طاقتیں تو صرف سودا بازی کرتی ہیں۔

https://www.facebook.com/q.m.chaudhry

اندھیر نگری ہے یہ اندھیر نگری

اندھیر نگری ہے یہ اندھیر نگری

تحریر: قیصر محمود چوہدری

ظلم خدا کا، اب یہی دن دیکھنا باقی تھا۔ صرف یہی سننے کی کسر رہ گئی تھی کہ جن کے کاندھوں پر ملک و قوم کے مستقبل کا بوجھ تھا، خونخوار بھیڑئیے بن چکے۔ اندھیر نگری ہے یہ اندھیر نگری۔ ہے کوئی اللہ کا بندہ جو اندھیروں میں ڈوبی ہوئی اس قوم کے لیے امید کی صرف ایک ہی کرن بن سکے؟

سانحہ بلدیہ فیکٹری کراچی کے متعلق جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ عام ہو چکی، عدالتی کاروائی کا حصہ بن چکی۔ یہ رپورٹ عام کیا ہوئی، ہماری سیاست ننگی ہو کر بیچ چوراہے پر کھڑی ہو گئی۔ نہ کوئی شرم نہ حیا۔ جاوید ہاشمی سے پوچھنے کو جی کرتا ہے کہ یہی ہے وہ جمہوریت جس کے آپ چیمپئین ہونے کے دعویدار ہیں؟ اس رپورٹ کی روشنی میں تو دولت اسلامیہ ہمارے جمہوریوں کے سامنے دودھ پیتی ہوئی بچی محسوس ہوتی ہے۔ کوئی جائے اور ابوبکر بغدادی کو ہمارے سیاسی بھیڑیوں کی اصلی خصلت سے آگاہ کرے۔ امید ہے کہ اسے راہِ بربریت پر اپنا سچا مرشد مل جائے گا۔

زیادہ دن نہیں گذرے جب دولتِ اسلامیہ کے وحشی دردندوں نے اردن کے قیدی پائلٹ کو پٹرول سے غسل دے کر آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا تھا۔ اس واقعہ پر پوری دنیا لرز اٹھی تھی۔ مشرق تا مغرب لوگوں کے دل دہل گئے تھے۔ انسانیت حیران تھی کہ ایسی سفاکی بھی ممکن ہے۔ لیکن اس معصوم دنیا کو کیا خبر کہ یہ تو کچھ بھی نہیں، اسی دنیا میں ایک ایسا عظیم ترین اسلامی جمہوریہ بھی واقع ہے جہاں 258 انسان، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، زندہ جلا دئیے جاتے ہیں، پھر ان جلی اور جھلسی ہوئی لاشوں پر کھڑے ہو کر سیاست کا جھنڈا اونچا کیا جاتا ہے، مگر مچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ لوگ اپنے ہی قاتلوں کو اپنا مسیحا جان کر ان کے نعرے بھی لگاتے ہیں!

سانحہ بلدیہ فیکٹری کراچی پر جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالتی کاروائی کا حصہ بن چکی، اب انتظار ہے صرف انصاف کا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ایم کیو ایم کے ایک معروف راہنما نے فیکٹری مالکان سے 20 کروڑ کا بھتہ مانگا۔ فیکٹری مالکان نے یہ رقم دینے سے انکار کر دیا۔ بھتہ اور تاوان کی انڈسٹری خوف پر چلتی ہے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ فیکٹری مالکان کو سبق سکھانا ضروری ہو گیا۔ اس دن کا انتخاب کیا گیا جب مزدورں کو تنخواہ ملنی تھی۔ یہ 11 ستمبر 2012 کا دن تھا۔ تنخواہ ملنے کی خوشی میں یہ مزدور فیکٹری پہنچے۔ فیکٹری کے دروازے بند کر دئیے گئے تاکہ کوئی پیسے چرا کر بھاگ نہ سکے۔ لیکن فیکٹری انتظامیہ ایم کیو ایم کے غنڈوں کو نہ روک پائی۔ وہ آئے اور کیمیکلز پھینک کر آگ لگا دی۔ آگ سے بچانے کے لیے حفاظتی انتظامات نامناسب اور ناکافی تھے۔ ہمارے ہاں، ایسے ناگہانی حالات سے نبٹنے کے لیے تربیت کی افادیت پر کون یقین کرتا ہے ۔ اوپر سے تمام دروازے بند۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آگ پھیلنے لگی۔ بھگدڑ مچ گئی۔ عورتیں، بچے اور مرد اپنی اپنی جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ دھوئیں کی مقدار بڑھنےلگی۔ سانس لینا مشکل ہونے لگا۔ فائر بریگیڈ کو کسی نے فون کر دیا۔ لیکن ان کی گاڑیاں ٹریفک میں پھنس گئیں۔ انتظار میں ہر لمحہ ایک صدی کے برابر ہوتا ہے۔ جلتے اور جھلستے ہوئے لوگوں کی امیدیں نا امیدی میں بدلنے لگیں۔ زندگیوں کے چراغ گل ہونے لگے۔ بھتے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے 258 انسان جو سینکڑوں خاندانوں کی روزی روٹی کا سہارا تھے، جل کر کوئلہ بن گئے۔ درجنوں لاشیں ناقابلِ شناخت ہو چکی تھیں۔ جلے ہوئے جسموں کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے ہوئی۔ کراچی میں 258 جنازے اٹھے۔ ساتھ ہی پاکستان سے انصاف کا جنازہ بھی اٹھ گیا۔ ایم کیو ایم کی قیادت کے انسانی جذبات جاگ اٹھے۔ تین روزہ سوگ کا اعلان کر کے ملک و قوم پر احسانِ عظیم کر دیا گیا۔ مگر 258 معصوم روحیں آج تک اس سوال کا جواب تلاش کر رہی ہیں کہ ان کا جرم کیا تھا۔ فیکٹری مالکان نے اگر بھتہ نہیں دیا تو اس میں ان کا کیا قصور تھا؟ یہ روحیں آج بھی انصاف کی تلاش اور انتظار میں ہیں۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ انسانی معاشرہ ہوتا تو اس رپورٹ کے سامنے آنے پر کہرام مچ جاتا۔ حکمرانوں کے لیے منہ چھپانا اور چلو بھر پانی میں ڈوب جانا بھی نا ممکن ہو جاتا۔ انسانیت ایک طرف رہی، درندوں میں بھی اتنی سفاکیت نہیں پائی جاتی۔ منافقت زدہ راہنماوں کو ایم کیو ایم کا نام لینے کی توفیق نہیں ہو رہی۔ پرویز رشید کے جرنیلی لبوں کو بھی اس موضوع پر کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہو پائی۔ اور تو اور، آج کے فرعونوں کے منہ پر بھی تالےپڑے ہیں۔ کوئی اتفاق کرے یا اختلاف، مجھے تو وہ وقت دور نہیں لگتا جب اس قوم کی قیادت خواجہ سراوں کے ہاتھ میں ہو گی۔

عام طور پر تصویر کے دونوں رخ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لیکن بلدیہ ٹاون فیکٹری کا سانحہ ایسا منحوس سانحہ ہے کہ اس کے دونوں رخ ایک جیسے ہی مہیب اور بھیانک ہیں۔ ایسی انہونی پاکستان کے علاوہ کس ملک میں ہو سکتی ہے؟

تصویر کے ایک رخ کے طرف متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے اشارہ کیا ہے۔ رابطہ کمیٹی کا فرمانا ہے کہ بلدیہ ٹاون فیکٹری میں آگ لگانے والے شخص کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وجہ اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ ایم کیو ایم میں جرائم پیشہ عناصر کے لیے زیرو ٹالرنس کی پالیسی پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ کہ اس حقیقت کی طرف سپریم کورٹ بھی توجہ کروا چکی کہ کراچی میں چند سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ ہیں اور جرائم میں ملوث ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم، جیسا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، واقعی اس آتشزدگی میں ملوث تھی۔ اس صورت میں کیا رابطہ کمیٹی اس بھیانک جرم کا اقرار کر سکتی تھی؟ ہر گز نہیں!


اب فرض کرتے ہیں کہ رابطہ کمیٹی کا ہر لفظ سچ ہے، سچ کے سوا کچھ نہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت دودھ سے دھلی ہے اور اس کی قیادت اگر زمین پر اپنا دامن بچھا دے تو فرشتے اس پر نماز پڑھنے کے لیے صفیں باندھ لیں۔ اس صورت میں ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ جھوٹ کا ایک پلندہ ہے، قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ اس جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں کراچی پولیس، آئی ایس آئی، آئی بی، پاکستان رینجرز اور ایف آئی اے کے ارکان شامل تھے۔ اگر ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی واقعی سچی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے یہ تمام ادارے متعصب ہو چکے اور اپنا اعتبار کھو چکے۔ یہ سب ادارے مل کر بھی ایک واقعہ کی آزادانہ تفتیش نہیں کر سکتے۔ عملی مطلب یہ ہوا کہ اب ہمارے ملک کا اللہ ہی حافظ۔

یہ کیس عدالت میں ہے۔ انصاف کا عمل جاری ہے۔ پاکستانی نظامِ عدل میں گاڑیاں توڑنے والے گلو بٹ کو تو سزا ہو جاتی ہے مگر دن دیہاڑے 14 انسانوں کو قتل کروانے والے پکڑے نہیں جاتے۔ قانون کے اپنے تقاضے اور اپنی ہی منطق ہوتی ہے۔ ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے ملکی سلامتی کے ذمہ داروں سے صرف اتنی گذارش ہے کہ بلدیہ ٹاون فیکٹری کے سانحہ کے اصل ذمہ داروں کے متعلق تمام تر شواہد عوام کے سامنے پیش کر دئیے جائیں۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کی ٹیم نے صرف رضوان قریشی کے بیان کی بنیاد پر ہی یہ رپورٹ تیار نہیں کی ہو گی۔ ان کے پاس اور شواہد بھی ہوں گے۔ یہ تمام شواہد قوم کے سامنے پیش کر دئیے جائیں۔ تاکہ عوام کو اس بربریت کے اصل ذمہ داروں کا پتہ چل سکے۔ رہا انصاف، وہ تو ہوتا ہی رہے گا اور نتیجہ بھی معلوم!

https://www.facebook.com/q.m.chaudhry